کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
یہ جو سرخ جزیرے ہیں سب خونیں ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں سب خونیں ہیں
ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں سب خونیں ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں سب خونیں ہیں
ایک وصیت میں نے اس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں سب خونیں ہیں
کون یہاں اس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں سب خونیں ہیں

غزل
کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
بقا بلوچ