کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی
ہر چند ترا عہد وفا بھول گئے ہم
وہ کشمکش صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شوخی یک جنبش لب یاد رہے گی
پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمی صحبت شب یاد رہے گی
گو ہجر کے لمحات بہت تلخ تھے لیکن
ہر بات بعنوان طرب یاد رہے گی
غزل
کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی
ناصر کاظمی