EN हिंदी
کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی | شیح شیری
kam-fursati-e-KHwab-e-tarab yaad rahegi

غزل

کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی

ناصر کاظمی

;

کم فرصتی خواب طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی

ہر چند ترا عہد وفا بھول گئے ہم
وہ کشمکش صبر طلب یاد رہے گی

سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شوخی یک جنبش لب یاد رہے گی

پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمی صحبت شب یاد رہے گی

گو ہجر کے لمحات بہت تلخ تھے لیکن
ہر بات بعنوان طرب یاد رہے گی