کل تو ترے خوابوں نے مجھ پر یوں ارزانی کی
ساری حسرت نکل گئی مری تن آسانی کی
پڑا ہوا ہوں شام سے میں اسی باغ تازہ میں
مجھ میں شاخ نکل آئی ہے رات کی رانی کی
اس چوپال کے پاس اک بوڑھا برگد ہوتا تھا
ایک علامت گم ہے یہاں سے مری کہانی کی
تم نے کچھ پڑھ کر پھونکا مٹی کے پیالے میں
یا مٹی میں گندھی ہوئی تاثیر ہے پانی کی
کیا بتلاؤں تم کو تم تک عرض گزارنے میں
دل نے اپنے آپ سے کتنی کھینچا تانی کی
غزل
کل تو ترے خوابوں نے مجھ پر یوں ارزانی کی
انجم سلیمی