کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂ دل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا
میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رسوا
اس گل نے مگر کام پسینے سے نکالا
ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حق دار تماشائی
اور مار سیہ ہم نے دفینے سے نکالا
یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفینے سے نکالا

غزل
کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا
اقبال ساجد