EN हिंदी
کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا | شیح شیری
kal shab dil-e-awara ko sine se nikala

غزل

کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا

اقبال ساجد

;

کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂ دل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا

میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رسوا
اس گل نے مگر کام پسینے سے نکالا

ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حق دار تماشائی
اور مار سیہ ہم نے دفینے سے نکالا

یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفینے سے نکالا