کل پہلی بار اس سے عنایت سی ہو گئی
کچھ اس طرح کہ مجھ کو شکایت سی ہو گئی
آیا ہے اب خیال تلافی تجھے کہ جب
اس دل کو تیرے ہجر کی عادت سی ہو گئی
پہلے پہل تو عام سی لڑکی لگی مجھے
پھر یوں ہوا کہ اس سے محبت سی ہو گئی
اتنے طویل عرصے سے ہم ساتھ ساتھ ہیں
اب ایک دوسرے کی ضرورت سی ہو گئی
اک بار اتفاق سے سچ میں نے کہہ دیا
پھر اس کے بعد جھوٹ سے نفرت سی ہو گئی
دل جب بھی چاہتا ہے تجھے سوچ لیتا ہوں
تیرے خیال پر مجھے قدرت سی ہو گئی
غزل
کل پہلی بار اس سے عنایت سی ہو گئی
سید انوار احمد