EN हिंदी
کل نشاط قرب سے موسم بہار اندازہ تھا | شیح شیری
kal nashat-e-qurb se mausam bahaar-andaza tha

غزل

کل نشاط قرب سے موسم بہار اندازہ تھا

سلیم احمد

;

کل نشاط قرب سے موسم بہار اندازہ تھا
کچھ ہوا بھی نرم تھی کچھ رنگ گل بھی تازہ تھا

تھک کے سنگ راہ پر بیٹھے تو اٹھے ہی نہیں
حد سے بڑھ کر تیز چلنے کا یہی خمیازہ تھا

آئینہ دونوں کے آگے رکھ دیا تقدیر نے
میرے چہرے پر لہو تھا روئے گل پر غازہ تھا

مجھ کو ملاحوں کے گیتوں سے محبت ہے مگر
رات ساحل پر ہوا کا شور بے اندازہ تھا

اب تو کچھ دکھ بھی نہیں ہے داغ بھی جاتا رہا
کل اسی دل میں یہیں اک زخم تھا اور تازہ تھا

گو یقینی تو نہیں تھے میرے تخمینے مگر
جو تجھے پیش آیا اس کا کچھ مجھے اندازہ تھا

میرے اوراق پریشاں دیکھنے والے کبھی
میں کتاب عشق تھا اور دل مرا شیرازہ تھا

آنکھ میں اس کی چمک تھی پر ہوس ناکی بھی تھی
رنگ اس کے رخ پہ تھا لیکن رہین غازہ تھا

جوش گریہ میرے رونے کا یہ شور باز گشت
کچھ نہ تھا اک کوچہ گرد صبر کا آوازہ تھا

جانے اندر کیا ہوا میں شور سن کر اے سلیمؔ
اس جگہ پہنچا تو دیکھا بند وہ دروازہ تھا