کل ہم غرور فن کی روانی میں پھنس گئے
اولی لکھا تھا مصرعۂ ثانی میں پھنس گئے
بچ کے نکل گئے جو رعایا کو بیچ کر
بد قسمتی سے بجلی و پانی میں پھنس گئے
لکھی تھیں اس کے جسم پہ ایسی عبارتیں
ہم اس غزل کے لفظ و معانی میں پھنس گئے
مجبور ہو کے دینے لگے ہجرتوں کا نام
جب بھی بزرگ نقل مکانی میں پھنس گئے
آخر میں فلم ساز ہیروئن کو لے گیا
جتنے تھے فلم بین کہانی میں پھنس گئے
ہر سال نونہال کی آمد گواہ ہے
ہم عشق کی یقین دہانی میں پھنس گئے
اردو کے امتحان میں چیٹنگ کے باوجود
حالیؔ پہ نوٹ لکھ دیا فانیؔ میں پھنس گئے
ہم نے تو خود ''قبول'' کہا تھا خوشی خوشی
اب تک ہے غم کہ عین جوانی میں پھنس گئے
چاچا کو مل گئی تھیں چچی مالدار سی
ماموں تمام عمر ممانی میں پھنس گئے
جو اشک بانٹتے تھے بنے میرؔ و جوشؔ و فیضؔ
ہم لفظ کی شگفتہ بیانی میں پھنس گئے
غزل
کل ہم غرور فن کی روانی میں پھنس گئے
خالد عرفان