کل چشم خوں فشاں سے گلزار پیرہن تھا
دامن کا تھا جو تختہ یک تختۂ چمن تھا
کیجو عظیمؔ کو بھی یا رب غریق رحمت
آوارۂ جنوں سا اک صاحب سخن تھا
اور معنی بند ایسا ہندی زباں کا صائبؔ
ہندوستاں سے لے کر مشہور تا دکن تھا
اک دن جو گھر سے نکلا خط شعاع آسا
بکھرا ہوا بدن پر ہر تار پیرہن تھا
دیکھا جو دفن کرتے جوں شمع پر ہو فانوس
تربت میں دور تن سے بالشت بھر کفن تھا
غزل
کل چشم خوں فشاں سے گلزار پیرہن تھا
ؔمرزا عظیم بیگ عظیم