EN हिंदी
کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف | شیح شیری
kaisi ruki hui thi rawani meri taraf

غزل

کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف

ظفر اقبال

;

کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف
ٹھہرا ہوا تھا اپنا ہی پانی مری طرف

تحریر میں بھی جو وہ مثال اپنی آپ ہے
پیغام بھیجتا ہے زبانی مری طرف

پتوں کا رنگ تھا کہ ہوا اور بھی ہرا
چلتی رہی ہوائے خزانی مری طرف

ہے کوئی آسمان میں جس کی طرف سے روز
آتی ہے ایک یاد دہانی مری طرف

لفظوں کا بوجھ رہتا ہے سر پر شبانہ روز
رہتی ہے گفتگو کی گرانی مری طرف

کردار اس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جا بجا
گم آ کے ہو گئی ہے کہانی مری طرف

تھے اس کی دسترس میں عجائب تو بیشتر
بھیجی نہ اس نے کوئی نشانی مری طرف

رہتا ہے لفظ لفظ کوئی شور مجھ سے دور
کرتی ہے زور موج معانی مری طرف

جب کوئی بھی نہیں ہے تو پھر رات بھر ظفرؔ
ہوتا ہے کون آکے بیانی مری طرف