EN हिंदी
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے | شیح شیری
kaisi baKHshish ka ye saman hua phirta hai

غزل

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے

جلیل حیدر لاشاری

;

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے

کیسا عاشق ہے ترے نام پہ قرباں ہے مگر
تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے

ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے
اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے

شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے
صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے