کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے
کیسا عاشق ہے ترے نام پہ قرباں ہے مگر
تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے
ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے
اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے
شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے
صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
غزل
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
جلیل حیدر لاشاری