کیسے سمجھاؤں نسیم صبح تجھ کو کیا ہوں میں
پھول کے سائے میں مرجھایا ہوا پتا ہوں میں
خاک کا ذرہ بھی کوئی تیرے دامن میں نہ تھا
قدر کر اے زندگی ٹوٹا ہوا تارا ہوں میں
ہر دھڑکتے دل سے انجانا سا رشتہ ہے مرا
آگ دامن میں کسی کے بھی لگے جلتا ہوں میں
اپنی تاریکی سمیٹے پوچھتی ہے مجھ سے رات
کون سی ہے صبح جس کو ڈھونڈھنے نکلا ہوں میں
مجھ کو سمجھائے تو کوئی رازدار کائنات
مجھ میں ہے آباد یہ دنیا کہ خود اپنا ہوں میں
زندگی ٹوٹے ہوئے خوابوں میں گزری ہے تو کیا!
آج بھی اک خواب آنکھوں میں لیے بیٹھا ہوں میں
سمت منزل ہی بدل جائے تو میرا کیا قصور
راستوں سے پوچھ کر دیکھو کہیں ٹھہرا ہوں میں
دیر تک حسرت سے دیکھے گی اسے شام سفر
جس زمیں پر نقش اپنے چھوڑ کر گزرا ہوں میں
چپکے چپکے رات بھر کہتا ہے اخترؔ مجھ سے دل
بستیاں آباد ہیں مجھ سے مگر صحرا ہوں میں
غزل
کیسے سمجھاؤں نسیم صبح تجھ کو کیا ہوں میں
اختر سعید خان