EN हिंदी
کیسے سفر پر نکلا ہوں | شیح شیری
kaise safar par nikla hun

غزل

کیسے سفر پر نکلا ہوں

عارف حسن خان

;

کیسے سفر پر نکلا ہوں
مڑ مڑ کر کیا تکتا ہوں

جانے پھر کب لوٹوں‌ گا
سب سے مل کر آیا ہوں

روٹھ گئی منزل کیسی
گلیوں گلیوں بھٹکا ہوں

کوئی مجھ کو کیوں گائے
درد بھرا اک نغمہ ہوں

کیا ہوگی تعبیر مری
اک مفلس کا سپنا ہوں

زخم تمہاری یادوں کے
اب اشکوں سے دھوتا ہوں

کوئی نہیں میرا ساتھی
اک بادل آوارہ ہوں

دیکھ مرے دل میں آ کر
جھوٹا ہوں یا سچا ہوں

عارفؔ اس دل کے ہاتھوں
مرتا ہوں اور جیتا ہوں