کیسے نکلوں خمار سے باہر
بازوؤں کے حصار سے باہر
درد نکلا ہے صبر کی حد سے
اشک نکلے قطار سے باہر
چند لمحوں کی مختصر قربت
اور یادیں شمار سے باہر
اس لیے اس کی یاد میں گم ہوں
بھولنا اختیار سے باہر
اور جائیں کہاں مہ و انجم
روز و شب کے مدار سے باہر
طفل دل پھر اداس بیٹھا ہے
کوئی لے جائے پیار سے باہر
کوئی رخشندہؔ ملنے آیا ہے
چل چلیں انتظار سے باہر

غزل
کیسے نکلوں خمار سے باہر
رخشندہ نوید