کیسے منظر ہیں جو ادراک میں آ جاتے ہیں
جیسے موتی کسی پوشاک میں آ جاتے ہیں
میں جھٹکتی ہوں سبھی ذہن سے یہ وہم و گماں
پھر بھی اکثر یہ مری تاک میں آ جاتے ہیں
جیسا بھیجا ہے مجھے آپ نے پیغام وفا
ایسے نامے تو کئی ڈاک میں آ جاتے ہیں
اپنی ہستی پہ گماں اتنا نہ کیجے صاحب
پیکر خاک تو پھر خاک میں آ جاتے ہیں
جن کو آنکھوں میں بسانے کی اجازت بھی نہیں
وہ تصور دل بیباک میں آ جاتے ہیں
نہیں ہوتے ہیں جو چہرے سے عیاں رنج و الم
وہ سبھی سینۂ صد چاک میں آ جاتے ہیں
غزل
کیسے منظر ہیں جو ادراک میں آ جاتے ہیں
فرح اقبال