کیسے کیسے سوانگ رچائے ہم نے دنیا داری میں
یوں ہی ساری عمر گنوا دی اوروں غم خواری میں
ہم بھی کتنے سادہ دل تھے سیدھی سچی بات کریں
لوگوں نے کیا کیا کہہ ڈالا لہجوں کی تہ داری میں
جب دنیا پر بس نہ چلے تو اندر اندر کڑھنا کیا
کچھ بیلے کے پھول کھلائیں آنگن کی پھلواری میں
کئی دنوں سے جسم و جاں پر اک بے کیفی چھائی ہے
بھیگ رہی ہے رات سناؤ کوئی غزل درباری میں
آنے والے کل کی خاطر ہر ہر پل قربان کیا
حال کو دفنا دیتے ہیں ہم جینے کی تیاری میں
تم بھی ان بیتے برسوں کی کوئی نشانی لے آنا
میں تم سے ملنے آؤں گی اسی بسنتی ساری میں
اب کی بار جو گھر جانا تو سارے البم لے آنا
وقت کی دیمک لگ جاتی ہے یادوں کی الماری میں
غزل
کیسے کیسے سوانگ رچائے ہم نے دنیا داری میں
عذرا نقوی