EN हिंदी
کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں | شیح شیری
kaise kaise mile din ko sae hamein

غزل

کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں

محب عارفی

;

کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں
رات نے بھید سارے بتائے ہمیں

راز ہستی تو کیا کھل سکے گا کبھی
مل گئے تھے مگر کچھ کنائے ہمیں

گرد ہیں کاروان گزشتہ کی ہم
کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں

ساری دل داریاں دیکھ کر سوئے ہیں
اب نہ زنہار کوئی جگائے ہمیں

ناز جن سے ہمارے نہ اٹھ پائے تھے
آج لے جا رہے ہیں اٹھائے ہمیں

دھوپ میں زندگی کی جلے ہیں بہت
لے چلو دوستو سائے سائے ہمیں

اک نوا تھی فضاؤں میں گم ہو گئی
ہم یہیں ہیں مگر کون پائے ہمیں

چل دیئے تھے محبؔ چھوڑ کر ناؤ تم
ڈوبتے دم بہت یاد آئے ہمیں