کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں
رات نے بھید سارے بتائے ہمیں
راز ہستی تو کیا کھل سکے گا کبھی
مل گئے تھے مگر کچھ کنائے ہمیں
گرد ہیں کاروان گزشتہ کی ہم
کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں
ساری دل داریاں دیکھ کر سوئے ہیں
اب نہ زنہار کوئی جگائے ہمیں
ناز جن سے ہمارے نہ اٹھ پائے تھے
آج لے جا رہے ہیں اٹھائے ہمیں
دھوپ میں زندگی کی جلے ہیں بہت
لے چلو دوستو سائے سائے ہمیں
اک نوا تھی فضاؤں میں گم ہو گئی
ہم یہیں ہیں مگر کون پائے ہمیں
چل دیئے تھے محبؔ چھوڑ کر ناؤ تم
ڈوبتے دم بہت یاد آئے ہمیں

غزل
کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں
محب عارفی