EN हिंदी
کیسے کہوں سفینے کو سیلاب لے گیا | شیح شیری
kaise kahun safine ko sailab le gaya

غزل

کیسے کہوں سفینے کو سیلاب لے گیا

رگھوناتھ سہائے

;

کیسے کہوں سفینے کو سیلاب لے گیا
میرا نصیب تھا جو تہہ آب لے گیا

اک جان آرزو کی تمنائے دید میں
جانے کہاں کہاں دل بیتاب لے گیا

ماتم کناں ہے شاخ فضائے چمن اداس
یہ کون توڑ کر گل شاداب لے گیا

گویا متاع دل ہی تھی میری متاع زیست
دل لے کے کوئی زیست کے اسباب لے گیا

صورت دکھا کے خواب میں اک آن کے لئے
یہ کون زندگی کے حسیں خواب لے گیا

دل کا قرار دل کا سکوں دل کی راحتیں
یہ کون میری زیست کے اسباب لے گیا

رندان لکھنؤ کے لئے تحفۂ امیدؔ
ساقی شراب الفت احباب لے گیا