کیسے اس شہر میں رہنا ہوگا
ہائے وہ شخص کہ مجھ سا ہوگا
رنگ بکھریں گے جو میں بکھروں گا
تو جو بکھرے گا تو ذرہ ہوگا
خشک آنکھوں سے اسی سوچ میں ہوں
ابر اس بار بھی برسا ہوگا
اب بھی پہروں ہے یہی سوچ مجھے
وہ مجھے چھوڑ کے تنہا ہوگا
وہ بدن خواب سا لگتا ہے مجھے
جو کسی نے بھی نہ دیکھا ہوگا
یہ تغیر کی ہوا ہے پیارے
اب جہاں پھول ہیں صحرا ہوگا
دیکھنا تم کہ یہی کنج بہار
پھر جو گزرو گے تو سونا ہوگا
نہ یہ چہرے نہ یہ میلے ہوں گے
نہ کوئی دوست کسی کا ہوگا
ایسا بدلے گا ستم گر موسم
خون شاخوں سے ٹپکتا ہوگا
نہ کسی سر میں محبت کا جنوں
نہ کسی دل میں یہ سودا ہوگا
حسن مجبور تہہ دام ہوس
عشق محروم نظارا ہوگا
ہم نے گھر اپنا جلایا ہے کہ شوقؔ
شہر میں کچھ تو اجالا ہوگا
غزل
کیسے اس شہر میں رہنا ہوگا
رضی اختر شوق