EN हिंदी
کیسے ان سچے جذبوں کی اب اس تک تفہیم کروں | شیح شیری
kaise in sachche jazbon ki ab us tak tafhim karun

غزل

کیسے ان سچے جذبوں کی اب اس تک تفہیم کروں

فاروق بخشی

;

کیسے ان سچے جذبوں کی اب اس تک تفہیم کروں
روٹھنے والا گھر آئے تو لفظوں میں ترمیم کروں

مجھ سے بچھڑ کر جانے والے اتنا تو سمجھاتا جا
اپنے آپ کو دو حصوں میں کیسے میں تقسیم کروں

اہل سیاست بانٹ رہے ہیں جان سے پیارے لوگوں کو
میں شاعر ہوں سچ کہتا ہوں کیوں ان کی تعظیم کروں

وہ بھی زمانہ ساز ہوا ہے تم بھی ٹھیک ہی کہتے ہو
میری بھی مجبوری سمجھو کس دل سے تسلیم کروں

تجھ سے بچھڑنا قسمت میں تھا جینا تو مجبوری ہے
سوچ رہا ہوں اجڑے گھر کی پھر سے نئی تعظیم کروں

کوشش تو کی لاکھ مگر کچھ بات نہیں بنتی فاروقؔ
سوچ رہا ہوں سارا منظر لفظوں میں تجسیم کروں