کیسے گزر سکیں گے زمانے بہار کے
چپ ہو گیا ہوں موسم گل کو پکار کے
یا میری زندگی میں اجالا کرے کوئی
یا پھینک دے کہیں یہ ستارے اتار کے
جھولی میں گل تو کیا کوئی کانٹا ہی ڈال دو
مایوس تو نہ ہو کوئی دامن پسار کے
دل پر بھی آؤ ایک نظر ڈالتے چلیں
شاید چھپے ہوئے ہوں یہیں دن بہار کے
آنکھوں میں آنسوؤں کی طرح تیرنے لگے
بھیگے ہوئے خیال لب جوئے بار کے
دہکی ہوئی فضاؤں میں جائیں کہاں طیور
سائے بھی جب گھنے نہ رہیں شاخسار کے
شہزادؔ کس زمیں کو میں اپنا وطن کہوں
آوارگان عشق ہوئے کس دیار کے

غزل
کیسے گزر سکیں گے زمانے بہار کے
شہزاد احمد