کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
اس لیے پھر آئے کعبے سے کہ مے خانہ نہ تھا
تم نے دیکھی ہی نہیں تقدیر کی تاریکیاں
اک اندھیری گور تھی فرقت میں کاشانہ نہ تھا
مجمع بیت الحرم کی دھوم سنتے تھے مگر
جا کے جب دیکھا تو ان میں کوئی فرزانہ نہ تھا
حشر میں اس شوخ کا طرز تغافل دیکھنا
مجھ کو پہچانا نہیں حالانکہ بیگانہ نہ تھا
حشر میں آخر اسے بھی چھوڑتے ہی بن پڑی
خانۂ مدفن بھی گویا اپنا کاشانہ نہ تھا
ایسی کیا بیتی کہ مضطرؔ ان بتوں پر مر مٹا
جان دے دیتا وہ کچھ ایسا تو دیوانہ نہ تھا
غزل
کیسے دل لگتا حرم میں دور پیمانہ نہ تھا
مضطر خیرآبادی