کیسا خزانہ یہ تو زاد سفر نہیں رکھتی
خانہ بدوش محبت کوئی گھر نہیں رکھتی
یادوں کے بستر پر تیری خوشبو کاڑھوں
اس کے سوا تو اور میں کوئی ہنر نہیں رکھتی
کوئی بھی آواز اس کی آہٹ نہیں ہوتی
کوئی بھی خوشبو اس کا پیکر نہیں رکھتی
میں جنگل ہوں اور اپنی تنہائی پر خوش
میری جڑیں زمین میں ہیں کوئی ڈر نہیں رکھتی
وہ جو لوٹ بھی آیا تو کیا دان کروں گی
میں تو اس کے نام کا اک زیور نہیں رکھتی
میراؔ ماں مری آگ کو کوئی گن نہیں آیا
اس مورت کو رام کروں یہ ہنر نہیں رکھتی

غزل
کیسا خزانہ یہ تو زاد سفر نہیں رکھتی
عشرت آفریں