کئی طرح کے لباس و حجاب رکھوں گا
ادھڑ رہا ہے یہ جیون نقاب رکھوں گا
کوئی کتاب تھما کر غریب بچوں کو
نئے درختوں کے کچھ انقلاب رکھوں گا
کبھی غرور نہ آئے کسی طرح مجھ میں
کہ رحمتوں کا میں اس کی حساب رکھوں گا
مجھے سوال گڑت کے سمجھ نہیں آتے
ترے فریب کے کیسے حساب رکھوں گا
بچھڑ کے شاخ سے بہتا پھروں رضا اس کی
کسی درخت پہ جا کر یہ خواب رکھوں گا
کہ پا لیا ہے کسے اور کھو دیا کس کو
یہی سوال ہے کیا کیا جواب رکھوں گا
تجھے سوال کی مہلت کبھی نہیں ملنی
ہر اک وقت کے پہلے جواب رکھوں گا
تمہارے ہونٹوں پہ میں نے کتاب لکھی ہے
مری کتاب کا عنواں گلاب رکھوں گا
غزل
کئی طرح کے لباس و حجاب رکھوں گا
سدیش کمار مہر