EN हिंदी
کئی ستارے یہاں ٹوٹتے بکھرتے ہیں | شیح شیری
kai sitare yahan TuTte bikharte hain

غزل

کئی ستارے یہاں ٹوٹتے بکھرتے ہیں

حیات لکھنوی

;

کئی ستارے یہاں ٹوٹتے بکھرتے ہیں
سب اپنی سطح سے آخر کہاں ابھرتے ہیں

نہ جانے کتنے عذابوں میں مبتلا ہم ہیں
اسی لیے تو نئی آرزو سے ڈرتے ہیں

ہم ایک بار مہیا نہ کر سکے تجھ کو
ہزار رنگ تری جستجو میں بھرتے ہیں

یہ جگنوؤں کی چمک روشنی نظر بھر کی
ہوا میں اڑتے مسافر کہاں ٹھہرتے ہیں

نفس نفس کے لیے سلسلے تلاش کرو
ہمیشہ لوگ یہاں قربتوں پہ مرتے ہیں

میں کوئی بہتا ہوا بیکراں سمندر ہوں
اک آئینے میں ہزار آئینے ابھرتے ہیں

وہ پستیاں اسی انسان کا مقدر ہیں
بلندیوں سے فرشتے جہاں اترتے ہیں

ہو اپنا قرب میسر تو کچھ بتائیں بھی
کہاں کہاں سے ترے ساتھ ہم گزرتے ہیں

حیاتؔ کچھ تو کہو دوستوں کی محفل میں
غموں کی بھیڑ میں اپنے بھی غم نکھرتے ہیں