کئی سلسلوں سے جڑا ہوا یہ جو زندگی کا سفر رہا
نئی منزلوں کی تلاش میں یہ رہین راہ گزر رہا
وہ جو لوگ میرے خلوص کا بڑا برملا سا جواز تھے
جو نگاہ ناز کا زعم تھے میں انہی کا صرف نظر رہا
میں دیار یار میں اجنبی جہاں عمر ساری گزر گئی
جسے میں نے اپنا سمجھ لیا وہ نگر جہان دگر رہا
کبھی ساز غم سے جو سر ملے تو میں رقص گاہ میں جل اٹھا
مرے بخت میں تھی جو نغمگی میں اسی کے زیر اثر رہا
کسی ایسے خوف میں مبتلا کہ بیاں کروں تو کروں بھی کیا
تھی جو ممکنات سے ماورا مجھے ایسی بات کا ڈر رہا
مری آرزو کوئی خواب تھا سو میں رت جگوں سے الجھ پڑا
مری عافیت تھی خمار میں مجھے جاگنے میں ہنر رہا
سبھی گفتگو کا مآل ہے نہ سوال کر نہ جواب دے
یہاں شور و غل کے بہاؤ میں جسے چپ لگی وہ امر رہا
غزل
کئی سلسلوں سے جڑا ہوا یہ جو زندگی کا سفر رہا
سلمان ثروت