کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے
کہ وہ بت بھی نہیں پھر کس طرح پتھر میں رہتا ہے
وہاں صحرا بھی ہے جنگل بھی دریا بھی چٹانیں بھی
عجب دنیا بسا رکھی ہے وہ جس گھر میں رہتا ہے
کھلے گی دھوپ جب پرچھائیاں پیڑوں سے نکلیں گی
یہ منظر بھی اسی سمٹے ہوئے منظر میں رہتا ہے
بلند و پست کی تفریق کیا سب ایک جیسے ہیں
مگر پرواز کا سودا جو بال و پر میں رہتا ہے
اسی باعث زمیں کی گود سے اٹھتا نہیں کوئی
بہت آرام گرنے ٹوٹنے کے ڈر میں رہتا ہے
غزل
کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے
شمیم حنفی