EN हिंदी
کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے | شیح شیری
kai raaton se bas ek shor sa kuchh sar mein rahta hai

غزل

کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے

شمیم حنفی

;

کئی راتوں سے بس اک شور سا کچھ سر میں رہتا ہے
کہ وہ بت بھی نہیں پھر کس طرح پتھر میں رہتا ہے

وہاں صحرا بھی ہے جنگل بھی دریا بھی چٹانیں بھی
عجب دنیا بسا رکھی ہے وہ جس گھر میں رہتا ہے

کھلے گی دھوپ جب پرچھائیاں پیڑوں سے نکلیں گی
یہ منظر بھی اسی سمٹے ہوئے منظر میں رہتا ہے

بلند و پست کی تفریق کیا سب ایک جیسے ہیں
مگر پرواز کا سودا جو بال و پر میں رہتا ہے

اسی باعث زمیں کی گود سے اٹھتا نہیں کوئی
بہت آرام گرنے ٹوٹنے کے ڈر میں رہتا ہے