کئی دن سے کوئی ہچکی نہیں ہے
وو ہم کو یاد اب کرتی نہیں ہے
سوا تیرے جدھر سے کوئی آئے
ہمارے دل میں وہ کھڑکی نہیں ہے
میں جس دریا میں کانٹا ڈالتا تھا
سنا ہے اب وہاں مچھلی نہیں ہے
تھیں جتنی سب کنویں میں پھینک آئے
ہمارے پاس اب نیکی نہیں ہے
غزل
کئی دن سے کوئی ہچکی نہیں ہے
نادم ندیم