کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا
مگر یہ چشم حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی متاع لعل و گوہر کی گراں یابی
متاع غیرت و ایماں کی ارزانی نہیں جاتی
مری چشم تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
سر خسرو سے ناز کج کلاہی چھن بھی جاتا ہے
کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
غزل
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسن دو عالم سے (ردیف .. ی)
فیض احمد فیض