کئی ایسے بھی رستے میں ہمارے موڑ آتے ہیں
کہ گھر آتے ہوئے اپنے کو اکثر چھوڑ آتے ہیں
ہمیں رشتوں سے کیا مطلوب ہے آخر کہ روزانہ
کسی سے توڑ آتے ہیں کسی سے جوڑ آتے ہیں
نہ جانے کس طرح بستر میں گھس کر بیٹھ جاتی ہیں
وہ آوازیں جنہیں ہم روز باہر چھوڑ آتے ہیں
کوئی تو مصلحت ہوگی کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں
ہمیں بھی ورنہ ان کے ٹوٹکوں کے توڑ آتے ہیں
چبھن سہتے ہیں ان کی پر انہیں کھلنے نہیں دیتے
ہمارے درمیاں ایسے بھی کچھ گٹھ جوڑ آتے ہیں
غزل
کئی ایسے بھی رستے میں ہمارے موڑ آتے ہیں
غضنفر