کیفیت دل حزیں ہم سے نہیں بیاں ہوئی
لفظ نہ ساتھ دے سکے آنسوؤں سے عیاں ہوئی
شورش واردات قلب شعروں میں ڈھال ڈھال کر
لکھتے رہے تمام عمر ختم نہ داستاں ہوئی
اب نہ وہ دل میں دھڑکنیں اب نہ وہ سوز و ساز ہے
پوچھتے ہیں وفات دل کیسے ہوئی کہاں ہوئی
میری ذرا سی بات پر جانے وہ کیوں خفا ہوئی
کوئی نہ تلخ گفتگو دونوں کے درمیاں ہوئی
گھر تو ہزاروں بن گئے اینٹوں کو جوڑ جوڑ کر
گھر کے مکینوں کی وفا زینت آشیاں ہوئی
صورت تھی وہ کہ برق سی بدلیوں کی تھی اوٹ میں
پردوں سے جھانک جھانک کر پردوں میں ہی نہاں ہوئی
ایک ہی شاخ پر رہے باڑھ میں سانپ اور آدمی
کیسی عجیب دوستی دونوں کے درمیاں ہوئی
غزل
کیفیت دل حزیں ہم سے نہیں بیاں ہوئی
بی ایس جین جوہر