EN हिंदी
کہوں کیا اضطراب دل زباں سے | شیح شیری
kahun kya iztirab-e-dil zaban se

غزل

کہوں کیا اضطراب دل زباں سے

جلیلؔ مانک پوری

;

کہوں کیا اضطراب دل زباں سے
رہے جاتے ہیں سب پہلو بیاں سے

انہیں چہکا رہا ہوں چاند کہہ کر
عوض لینا ہے مجھ کو آسماں سے

ہم ایسے ناتواں وہ ایسے نازک
اٹھائے کون پردہ درمیاں سے

شمیم گل نے بڑھ کر حال مارا
قدم باہر جو رکھا آشیاں سے

تڑپ میری ترقی کر رہی ہے
زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے

خدا رکھے چمن کا پھول ہو تم
ہنسو کھیلو نسیم بوستاں سے

نگاہ گل سے بلبل یوں گری ہے
گرے جس طرح تنکا آشیاں سے

زمین شعر ہم کرتے ہیں آباد
چلے آتے ہیں مضموں آسماں سے

بڑا لنگر تھا شعر و شاعری کا
اٹھا کیوں کر جلیلؔ ناتواں سے