کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی
قیمت میں دید رخ کی ہم نقد جاں لگاتے
بازار ناز لگتا دل کی خرید ہوتی
کچھ اپنی بات کہتے کچھ میرا حال سنتے
ناز و نیاز کی یوں گفت و شنید ہوتی
جلوے دکھاتے جاتے وہ طرز دلبری کے
اور دل میں یاں ہوائے ناز مزید ہوتی
تیغ نظر سے دل پر وہ وار کرتے جاتے
اور لب پہ یاں صدائے ھل من مزید ہوتی
ابرو سے ان کے غمزہ تیر ادا لگاتا
یہ دل قتیل ہوتا یہ جاں شہید ہوتی
کچھ حوصلہ بڑھاتا انداز لطف جاناں
کچھ دغدغہ سا ہوتا کچھ کچھ امید ہوتی
غزل
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
غلام بھیک نیرنگ