EN हिंदी
کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے | شیح شیری
kahte hain ab hai shauq mulaqat ka mujhe

غزل

کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے

عاشق اکبرآبادی

;

کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے
جب حوصلہ رہا ہی نہیں بات کا مجھے

سمجھا یہ میں کہ دل کو مرے پھیرتا ہے یہ
باسی جب اس نے پان رہا بات کا مجھے

دن رات دیکھتا ہوں حسینوں کے تذکرے
رہتا ہے شوق اپنی حکایات کا مجھے

آتی ہیں یاد یار کے کانوں کی بجلیاں
موسم نہ جینے دے گا کہ برسات کا مجھے

مجھ کو اگر غرض ہے تو اک ان کی ذات سے
عاشقؔ نہیں ہے ڈر تو کسی ذات کا مجھے