کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے
جب حوصلہ رہا ہی نہیں بات کا مجھے
سمجھا یہ میں کہ دل کو مرے پھیرتا ہے یہ
باسی جب اس نے پان رہا بات کا مجھے
دن رات دیکھتا ہوں حسینوں کے تذکرے
رہتا ہے شوق اپنی حکایات کا مجھے
آتی ہیں یاد یار کے کانوں کی بجلیاں
موسم نہ جینے دے گا کہ برسات کا مجھے
مجھ کو اگر غرض ہے تو اک ان کی ذات سے
عاشقؔ نہیں ہے ڈر تو کسی ذات کا مجھے

غزل
کہتے ہیں اب ہے شوق ملاقات کا مجھے
عاشق اکبرآبادی