کہتا ہے کوئی سن کے مری آہ رسا کو
پہچانتے ہیں ہم بھی زمانے کی ہوا کو
تاثیر کے دو حصے اگر ہوں تو مزا ہے
اک میری فغاں کو ملے اک تیری ادا کو
ہم سا کوئی بندہ بھی زمانے میں نہ ہوگا
گر اس نے بھلایا تو کیا یاد خدا کو
سنتا ہوں کہ ہے خواہش پابوس اسے ابھی
وہ پیس کے رکھ دیں نہ کہیں برگ حنا کو
اے نوحؔ ابھی ہے مری فریاد انہیں سے
جب وہ نہ سنیں گے تو پکاروں گا خدا کو
غزل
کہتا ہے کوئی سن کے مری آہ رسا کو
نوح ناروی