کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے
تنگ آ گیا ہوں یار محبت کے نام سے
میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بینا کا روگ ہے
اور لوگ ہیں کہ کام انہیں اپنے کام سے
عشاق ہیں کہ مرنے کی لذت سے ہیں نڈھال
شمشیر ہے کہ نکلی نہیں ہے نیام سے
جب اس نے جا کے پہلوئے گل میں نشست کی
باد صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے
وحشت اک اور ہے مجھے ہجرت سے بھی سوا
ہم خانہ مطمئن نہیں میرے قیام سے
غزل
کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے
جمال احسانی