کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
واں نہ تفصیل گئی پیش نہ اجمال گیا
دام کاکل سے گلا کیا یہ جو ہے طائر دل
آپ اپنے یہ پھنسانے کو پر و بال گیا
دل بے تاب کی کیا جانے ہوئی کیا صورت
پیچھے اس شوخ ستمگر کے جو فی الحال گیا
لے گیا ساتھ لگا وہ بت قاتل گھر تک
یا اسے مار کے رستے میں کہیں ڈال گیا
خیر وہ حال ہوا یا یہ ہوئی شکل نظیرؔ
کچھ تأسف نہ کرو جانے دو جنجال گیا
غزل
کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
نظیر اکبرآبادی