EN हिंदी
کہنے سے نہ منع کر کہوں گا | شیح شیری
kahne se na mana kar kahunga

غزل

کہنے سے نہ منع کر کہوں گا

نظام رامپوری

;

کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
تو میری نہ سن مگر کہوں گا

تم آپ ہی آئے یوں ہی سچ ہے
نالے کو نہ بے اثر کہوں گا

گر کچھ بھی سنیں گے وہ شب وصل
کیا کیا نہ میں تا سحر کہوں گا

کہتے ہیں جو چاہتے ہیں دشمن
میں اور تمہیں فتنہ گر کہوں گا

کہتے تو یہ ہو کہ تو ہے اچھا
مانو گے برا اگر کہوں گا

یوں دیکھ کے مجھ کو مسکرانا
پھر تم کو میں بے خبر کہوں گا

اک بات لکھی ہے کیا ہی میں نے
تجھ سے تو نہ نامہ بر کہوں گا

کب تم تو کہو گے مجھ سے پوچھو
میں باعث درد سر کہوں گا

تجھ سے ہی چھپاؤں گا غم اپنا
تجھ سے ہی کہوں گا گر کہوں گا

معلوم ہے مجھ کو جو کہو گے
میں تم سے بھی پیشتر کہوں گا

حیرت سے کچھ ان سے کہہ سکوں گا
بھولوں گا کا ادھر ادھر کہوں گا

کچھ درد جگر کا ہوگا باعث
کیوں تجھ سے میں چارہ گر کہوں گا

اب حال نظامؔ کچھ نہ پوچھو
غم ہوگا تمہیں بھی گر کہوں گا