EN हिंदी
کہنے کو سب فسانۂ غیب و شہود تھا | شیح شیری
kahne ko sab fasana-e-ghaib-o-shuhud tha

غزل

کہنے کو سب فسانۂ غیب و شہود تھا

روش صدیقی

;

کہنے کو سب فسانۂ غیب و شہود تھا
در پردہ استعارۂ شوق و نمود تھا

سمجھا نہ بوالہوس کسے کہتے ہیں انتظار
ناداں اسیر کشمکش دیر و زود تھا

کیا عاشقی میں حوصلۂ مرگ و زندگی
خواب و خیال مرحلۂ ہست و بود تھا

سوچا تھا مے کدہ ہی سہی گوشۂ نجات
دیکھا تو اک ہجوم رسوم و قیود تھا

جاں شاد کام بوسۂ پائے صنم ہوئی
کتنا بلند طالع ذوق سجود تھا

یہ عشق تھا کہ جس نے دیا رنگ شعلہ تاب
عالم تمام نقش سکوت و جمود تھا

اے دوست اب وہ دور تامل گزر چکا
جب دامن نظر پہ غبار حدود تھا

شب ہم غزل سرا تھے روشؔ بزم ناز میں
شمع ادب شناس کے لب پر درود تھا