EN हिंदी
کہنے کو پر سکون مگر مخمصے میں ہوں | شیح شیری
kahne ko pur-sukun magar maKHmase mein hun

غزل

کہنے کو پر سکون مگر مخمصے میں ہوں

نسیم احمد نسیم

;

کہنے کو پر سکون مگر مخمصے میں ہوں
برسوں سے میں خدایا عجب مرحلے میں ہوں

منزل ہے میرے آگے میں منزل کے روبرو
پھر بھی میں چل رہا ہوں ابھی راستے میں ہوں

جھوٹی گواہیوں کی بدولت وہ بچ گیا
سچ بولتا ہوا میں ابھی کٹگھرے میں ہوں

سچ بات کہنا جب سے شروع میں نے کر دیا
تب سے کھڑا میں جیسے کسی کربلے میں ہوں