کہنے آئے تھے کچھ کہا ہی نہیں
چل دئے جیسے کچھ سنا ہی نہیں
اس قدر ظلم ابن آدم پر
جیسے اس کا کوئی خدا ہی نہیں
ہم جما کر نگاہ بیٹھے ہیں
اپنی قسمت کا در کھلا ہی نہیں
فکر آغاز ہی کی ہے سب کو
کوئی انجام سوچتا ہی نہیں
تیرے مقتل میں آ گئے آخر
اور کچھ ہم کو راستہ ہی نہیں
وہ ترے نقش پا کو کیا سمجھے
جس کا سجدے میں سر جھکا ہی نہیں
تو کتابوں میں ڈھونڈھتا کیا ہے
عشق کی چارہ گر دوا ہی نہیں
جس کو سینے سے ہم لگا لیتے
ہم کو ایسا کوئی ملا ہی نہیں
اور اب جی کے کیا کریں اصغرؔ
اب تو جینے میں کچھ مزا ہی نہیں
غزل
کہنے آئے تھے کچھ کہا ہی نہیں
اصغر ویلوری