کہیں یہ لمحۂ موجود واہمہ ہی نہ ہو
جو ہو رہا ہے یہ سب پہلے ہو چکا ہی نہ ہو
وہ صدمہ جس کے سبب میں ہوں سر بہ زانو ابھی
عجب نہیں مری دانست میں ہوا ہی نہ ہو
ترے غیاب میں جو کچھ کیا حکایت میں
کہیں وہ گفتہ و نا گفتہ سے سوا ہی نہ ہو
کلام کرتی ہوئی لہریں چپ نہ ہوں مرے بعد
مرے لیے کہیں پانی رکا ہوا ہی نہ ہو
گزرتی شام درخت آب جو سکوت اور میں
سخن مثال یہ منظر بھی گونجتا ہی نہ ہو
یہ کیا کہ میں نیا چہرہ لیے اٹھوں ہر روز
یہ کیا کہ ترکؔ مرا خواب ٹوٹتا ہی نہ ہو
غزل
کہیں یہ لمحۂ موجود واہمہ ہی نہ ہو
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ