کہیں وہ میری محبت میں گھل رہا ہی نہ ہو
خدا کرے اسے یہ تجربہ ہوا ہی نہ ہو
سپردگی مرا معیار تو نہیں لیکن
میں سوچتا ہوں ترے روپ میں خدا ہی نہ ہو
میں تجھ کو پا کے بھی کس شخص کی تلاش میں ہوں
مرے خیال میں کوئی ترے سوا ہی نہ ہو
وہ عذر کر کہ مرے دل کو بھی یقیں آئے
وہ گیت گا کہ جو میں نے کبھی سنا ہی نہ ہو
وہ بات کر جسے پھیلا کے میں غزل کہہ لوں
سناؤں شعر جو میں نے ابھی لکھا ہی نہ ہو
سحر کو دل کی طرف یہ دھواں سا کیسا ہے
کہیں یہ میرا دیا رات بھر جلا ہی نہ ہو
ہو کیسے جبر مشیت کو اس دعا کا لحاظ
جو ایک بار ملے پھر کبھی جدا ہی نہ ہو
یہ ابر و کشت کی دنیا میں کیسے ممکن ہے
کہ عمر بھر کی وفا کا کوئی صلہ ہی نہ ہو
مری نگاہ میں وہ پیڑ بھی ہے بد کردار
لدا ہوا ہو جو پھل سے مگر جھکا ہی نہ ہو
جو دشت دشت سے پھولوں کی بھیک مانگتا تھا
کہیں وہ توڑ کے کشکول مر گیا ہی نہ ہو
طلوع صبح نے چمکا دئے ہیں ابر کے چاک
ندیمؔ یہ مرا دامان مدعا ہی نہ ہو
غزل
کہیں وہ میری محبت میں گھل رہا ہی نہ ہو
احمد ندیم قاسمی