کہیں تو روز ہی میلے کہیں پرچم اکھڑتا ہے
کہیں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں کہیں بس دم اکھڑتا ہے
نہیں ممکن ہے کوئی پیڑ یوں جڑ چھوڑ دے اپنی
اگر ہو جائے گی مٹی ذرا بھی نم اکھڑتا ہے
کرو کوشش بھلے ہی لاکھ ٹوٹے دل بچانے کی
مگر موسم وہی آ جاے تو ہر غم اکھڑتا ہے
اگر چلنا ہے کانٹوں پر تو چوٹوں کو رواں کر لو
دیا ہو لاکھ زخموں پر بھلے مرہم اکھڑتا ہے
میں چھوتی آسماں کو ہوں بڑھا دیتی ہوں پینگوں کو
مری جب یاد میں بچپن کا وہ موسم اکھڑتا ہے
کہاں جاؤں میں کیا کر لوں سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ذرا سی بات پر جب بھی رتنؔ ہم دم اکھڑتا ہے

غزل
کہیں تو روز ہی میلے کہیں پرچم اکھڑتا ہے
کرتی رتن سنگھ