EN हिंदी
کہیں تو پھینک ہی دیں گے یہ بار سانسوں کا | شیح شیری
kahin to phenk hi denge ye bar sanson ka

غزل

کہیں تو پھینک ہی دیں گے یہ بار سانسوں کا

ارشد محمود ارشد

;

کہیں تو پھینک ہی دیں گے یہ بار سانسوں کا
اٹھائے بوجھ جو پھرتے ہیں یار سانسوں کا

انا غرور تکبر حیات کچھ بھی نہیں
کہ سارا کھیل ہے پیارے یہ چار سانسوں کا

چلو یہ زندگی زندہ دلی سے جیتے ہیں
بڑھے گا اس طرح کچھ تو وقار سانسوں کا

گلابی ہونٹ وہ ہونٹوں پہ رکھ کے کہتی تھی
سدا رہے گا یہ تجھ پر خمار سانسوں کا

بڑے قریب سے گزری ہے موت چھو کے تجھے
جو ہو سکے کوئی صدقہ اتار سانسوں کا

ہوا یہ وجد میں آ کر دیے سے کہنے لگی
کہ اب تو سہہ نہیں پائے گا وار سانسوں کا

ہم اس کو زندگی سمجھیں تو کس طرح ارشدؔ
کسی کے ہاتھ میں ہے اختیار سانسوں کا