کہیں ٹھہر کے نہ رہ جائیں دھڑکنیں دل کی
مزاج دوست ہے آمادہ برہمی کے لئے
نشاط زیست میسر نہیں تو کیا غم ہے
غم حیات ہی کافی ہے زندگی کے لئے
بہار نو نے تبسم گلوں سے چھین لیا
چمن میں پھول ترستے ہیں اک ہنسی کے لئے
غزل
کہیں ٹھہر کے نہ رہ جائیں دھڑکنیں دل کی (ردیف .. ے)
نظیر محسن