EN हिंदी
کہیں صبح و شام کے درمیاں کہیں ماہ و سال کے درمیاں | شیح شیری
kahin subh-o-sham ke darmiyan kahin mah-o-sal ke darmiyan

غزل

کہیں صبح و شام کے درمیاں کہیں ماہ و سال کے درمیاں

بدر عالم خلش

;

کہیں صبح و شام کے درمیاں کہیں ماہ و سال کے درمیاں
یہ مرے وجود کی سلطنت ہے عجب زوال کے درمیاں

ابھی صحن جاں میں بچھی ہوئی جو بہار ہے اسے کیا کہوں
میں کسی عتاب کی زد میں ہوں تو کسی ملال کے درمیاں

ہیں کسی اشارے کے منتظر کئی شہسوار کھڑے ہوئے
کہ ہو گرم پھر کوئی معرکہ مرے ضبط حال کے درمیاں

نہیں ترجمان بیاں کوئی جو ہے پردہ‌ دار سکوت ہے
ہیں یہ داغ داغ عبارتیں بڑے احتمال کے درمیاں

یہاں ذرہ ذرہ ہے دیدہ ور نہیں ذرہ بھر کوئی بے خبر
کسی کم نظر کو پڑی ہے کیا پڑے کیوں سوال کے درمیاں

نہ رہا دھواں نہ ہے کوئی بو لو اب آ گئے وہ سراغ جو
ہے ہر اک نگاہ گریز خو پس اشتعال کے درمیاں

تھے جو پر کشا ہیں زبوں زبوں تھے جو سر بکف ہوئے سرنگوں
کہیں کھو گئے دروں دروں یہ کس اندر جال کے درمیاں

لگی ضرب ایسی ہے بر محل کہ یہ مرحلہ بھی ہے جاں گسل
ہوئے زخم پھر سے لہو لہو تھے جو اندمال کے درمیاں

کبھی شکوہ زن کبھی نکتہ چیں کبھی باغیوں کا حمایتی
یہ خلشؔ ہے کون کہو اسے رہے اعتدال کے درمیاں