EN हिंदी
کہیں سے موت کو لاؤ کہ غم کی رات کٹے | شیح شیری
kahin se maut ko lao ki gham ki raat kaTe

غزل

کہیں سے موت کو لاؤ کہ غم کی رات کٹے

راجیندر کرشن

;

کہیں سے موت کو لاؤ کہ غم کی رات کٹے
مرا ہی سوگ مناؤ کہ غم کی رات کٹے

کرے نہ پیچھا مرا زندگی کو سمجھا دو
یہ راہ اس کو بھلاؤ کہ غم کی رات کٹے

کہو بہاروں سے اب شاخ دل نہ ہوگی ہری
خزاں کے گیت سناؤ کہ غم کی رات کٹے

نہ چارہ گر کی ضرورت نہ کچھ دوا کی ہے
دعا کو ہاتھ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے