کہیں سے موت کو لاؤ کہ غم کی رات کٹے
مرا ہی سوگ مناؤ کہ غم کی رات کٹے
کرے نہ پیچھا مرا زندگی کو سمجھا دو
یہ راہ اس کو بھلاؤ کہ غم کی رات کٹے
کہو بہاروں سے اب شاخ دل نہ ہوگی ہری
خزاں کے گیت سناؤ کہ غم کی رات کٹے
نہ چارہ گر کی ضرورت نہ کچھ دوا کی ہے
دعا کو ہاتھ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے
غزل
کہیں سے موت کو لاؤ کہ غم کی رات کٹے
راجیندر کرشن