EN हिंदी
کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے | شیح شیری
kahin sar paTakte diwane kahin par jhulaste parwane

غزل

کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے

آرزو لکھنوی

;

کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے
جو ہو بے شعور کیا جانے یہ ہیں زندگی کے افسانے

یہ نئی نئی ہر اک صورت یہ طلسمی آئینہ خانے
ہے غضب کی شعلہ سامانی کہ بھٹک رہے ہیں پروانے

سبھی اپنے اور بیگانے چلے آ رہے ہیں سمجھانے
مجھے کیا ہوا خدا جانے میں سڑی ہوں یا یہ دیوانے

کوئی آ رہا ہے سمجھانے مگر اس طرح کہ بے جانے
ہیں اسی کے غم میں دیوانے ابھی سن لے تو برا مانے

للک ایک سی نہ اے کوئل نہ ترا سا دل ہے میرا دل
تری کوک کو میں کیا سمجھوں مری ہوک کو تو کیا جانے

تری بے رخی نے اے ساقی ہوس طلب بڑھا دی ہے
ہوا چور ایک پیمانہ تو بنے ہزار پیمانے

ہے ادھر خمار آنکھوں میں ادھر انتظار آنکھوں میں
ابھی دور مے کشی ہے دور ابھی بن رہے ہیں میخانے

ہوا بھولے پن پہ جو بسمل وہ تو اپنا آپ ہے قاتل
یہ سمجھ کا پھیر ہے اے دل ستم و جفا وہ کیا جانے

نئی کروٹیں زمانے کی ہیں بڑی ہی انقلاباتی
کہیں بستیوں میں ویرانی کہیں بس رہے ہیں ویرانے

یہ ابھرتی مٹتی تحریریں یہ بگڑتی بنتی تصویریں
کسی حسن کی ہیں تنویریں کوئی دیکھے ہو تو پہچانے

تو ہے جان حسن یہ سن کے تو پسینہ چھوٹا ماتھے سے
مرا نام آرزوؔ سن لے تو وہ اور بھی برا مانے