کہیں سانحے ملیں گے کہیں حادثہ ملے گا
ترے شہر کی فضا سے مجھے اور کیا ملے گا
کوئی سنگ توڑنے ہے سر راہ زندگانی
میں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہیں آئنا ملے گا
تری جان بخش دینا مری مصلحت کا جز ہے
مرے قاتلوں سے اک دن ترا سلسلہ ملے گا
مرے قتل کی حقیقت نہ چھپا سکے گا کوئی
مرے قاتلوں کے گھر میں مرا خط جلا ملے گا
میں بھنور میں جب پھنسا تھا یہ صدا دی اس نے عنبرؔ
تری ناؤ ہے بھنور میں تجھے نا خدا ملے گا
غزل
کہیں سانحے ملیں گے کہیں حادثہ ملے گا
عنبر وسیم الہآبادی