کہیں پہ قرب کی لذت کا اقتباس نہیں
ترے خیال کی خوشبو بھی آس پاس نہیں
ہزار بار نگاہوں سے چوم کر دیکھا
لبوں پہ اس کے وہ پہلی سی اب مٹھاس نہیں
سجا کے بوتلیں ٹیبل پہ منتظر ہوں مگر
قریب و دور نگاہوں کے وہ گلاس نہیں
سمندروں کا یہ نمکین پانی کیسے پیوں
پیاسا ہوں مگر اتنی زیادہ پیاس نہیں
یہ اور بات کہ مجھ سے بچھڑ کے خوش ہے مگر
وہ کیسے کہہ دے کہ میں ان دنوں اداس نہیں
تمہارے کپڑے کہیں گرد میں نہ اٹ جائیں
یہ خشک پتوں کا بستر ہے سبز گھاس نہیں
بجھی بجھی سہی یہ دھوپ کم نہیں اسلمؔ
اب اس کے بعد کسی روشنی کی آس نہیں
غزل
کہیں پہ قرب کی لذت کا اقتباس نہیں
اسلم آزاد